سمجھاؤں ہوں یہی دل ناکام کے تئیں
سمجھاؤں ہوں یہی دل ناکام کے تئیں
آغاز بیچ سونچ لے انجام کے تئیں
کیا جاوے گا بگڑے کہیں قدرت کا ہاتھ ٹک
دیوے پلٹ جو گردش ایام کے تئیں
سودا کرے ہے غم کا جو بازار عشق بیچ
سو دکھ کے بھاؤ بیچ ہے آرام کے تئیں
واعظ سنا دے سدرۂ طوبیٰ کی گفتگو
ہم چاہیں اپنے سرو گل اندام کے تئیں
بولے ہے شیخ مجھ ستی ساقی کو کہہ دو تم
ایدھر کو بھی بڑھاوے کسو جام کے تئیں
بھاوے نہیں ہے ہے شیخ کی صحبت یہ مے کشو
بیٹھا دو ساتھ مت کسو بدنام کے تئیں
سجادؔ کاہے کھینچے ہے تو آہ نارسا
توڑے ہے کوئی بھی ثمر خام کے تئیں
- کتاب : بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری (Pg. 124)
- Author : محمد طیب ابدالی
- مطبع : اسرار کریمی، الہ آباد (1988)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.