دیتا ہوں داد فطرت حق شناس کو میں
دیتا ہوں داد فطرت حق شناس کو میں
ہنگامۂ خودی میں بھولا نہ خدا کو میں
جنبش جو دوں نگاہ حقیقت کشا کو میں
رکھ دوں الٹ کے پردۂ ارض و سما کو میں
دل کو ہٹاؤں کیوں نگۂ آشنا کو میں
اس آئینے میں دیکھ رہا ہوں خدا کو میں
اے حشر ابھی نہ دے خبر شام بے خودی
اک کھیل جانتا ہوں فنا و بقا کو میں
افشا ہے مجھ پر راز خودی سر بے خودی
افسانہ خودی تو سنالوں خدا کو میں
اس کش مکش میں منزل مقصود کیا ملے
رہبر سمجھ رہا ہے ہر اک نقش پا کو میں
پیش نگاہ رہنے دو بت خانۂ حرم
جب تک ماسوا میں سمجھ لوں خدا کو میں
کیا رہا ہے بت کی صدائے خموش سن
اس پیرہین میں پوج رہا ہوں کو میں
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 113)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.