میں ہوں جہاں وہاں ہے نظر کا گزر کہاں
میں ہوں جہاں وہاں ہے نظر کا گزر کہاں
ہے عصمت جمال کو تاب نظر کہاں
منظور ہے ابھی انہیں پاس نظر کہاں
وعدہ کیا ہے جلوہ گری کا مگر کہاں
تھی شورش بہار میں اتنی خبر کہاں
کیا جانے میں نے پھینک دیے بال و پر کہاں
منزل پر منحصر ہے مسافر ترا سکوں
رکھی ہے یہ متاع سر رہ گزر کہاں
ماہ و نجوم سے بھی پرے محو سیر ہوں
دیکھا ہے تونے میرا مقام نظر کہاں
زندہ دلان عشق و فنا راز و ہست بود
یہ ملک جاوداں کے مسافر ادھر کہاں
اجڑا اور ایسی شان سے اجڑا مرا چمن
یہ بھی پتہ نہیں کہ بنایا تھا گھر کہاں
غارت ہوتی تو ہیں مری بیداریاں کہیں
میں جہاں خواب سے تھا پیشتر کہاں
پہنچا ہوں راہ دور سے ہستی کی شام تک
اب غور کر رہا ہوں کہ ہوگی سحر کہاں
اپنے جنون خام کی تکمیل کیجیے
سیمابؔ پھر یہ موسم دیوانہ گر کہاں
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 113)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.