جسے مآل تماشا پر اعتبار رہے
جسے مآل تماشا پر اعتبار رہے
وہ کیوں فریب کش جلوہ بہار رہے
نہ حیرتی نہ گراں بار انتظار رہے
نظر وہ ہے جو شریک جمال یار رہے
حقیقتاً تھے حجاب و جمال ہم معنی
وہ جتنے چھپ گئے اتنے ہی آشکار رہے
اک ایسا گیت سنا کر ہو مائل پرواز
چمن میں پھر تری آمد کا انتظار رہے
کسی سے ہم کو نہ تھی دنیا میں کوئی امید
مگر کسی نہ کسی کے امیدوار رہے
ٹھہر سکے نہ جب اک مرکز معین پر
تو کیا نگاہ تماشا کا اعتبار رہے
یہ اب کے جوش جنوں کا نیا تقاضا ہے
کہ باغباں نہ رہے باغ میں بہار رہے
رہے تو عالم ہستی میں دیر تک سیمابؔ
مگر ملال رہا کہ مستعار رہے
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 114)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.