مختلف ہیولوں میں اک مری تمنا تھی
مختلف ہیولوں میں اک مری تمنا تھی
چھپ گئی تو عقبیٰ تھی مل گئی تو دنیا تھی
کچھ عجب محبت میں نیت تماشا تھی
اک نظر میں جلوے تھے اک نظر میں دنیا تھی
دیدہ زیب تھی دنیا قابل تماشا تھی
دل اگر نہ مر جاتا زندگی بری کیا تھی
شب ستان عالم میں شمع بن کے آیا تھا
مجھ کو صرف اتنی ہی فرصت تماشا تھی
سو طرح تخیل کی کروٹیں بدلنی تھیں
تھے فریب فطرت کے دین تھا نہ دنیا تھی
اول اول اک موسیٰ مائل تماشا تھے
رفتہ رفتہ ہستی کی ہر اٹھان موسیٰ تھی
ہر شفق کی موجوں میں تھے غروب سو عالم
ہر سحر کے پردے میں اک جدید دنیا تھی
فطرت طلب معلوم ہاں مگر یہ دیکھا ہے
جس نے چھوڑ دی دنیا اس کے ساتھ دنیا تھی
جادۂ توکل بھی اک عجیب جادہ تھا
میں جدھر بھی جاتا تھا ٹھوکروں میں دنیا تھی
تو ہوس میں دنیا کی زندگی مٹا بیٹھا
بھول ہو گئی غافل زندگی ہی دنیا تھی
میں جیا بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی
یہ نہ کھل سکا لیکن آپ کی خوشی کیا تھی
بھیک چھپ چھپا کر دی کیوں نہ اپنے جلووں کی
مانگنے کو موسیٰ تھے دیکھنے کو دنیا تھی
میں فریب صورت میں بے نیاز معنی تھا
میری زندگی سیمابؔ اک حسین دھوکا تھی
- کتاب : کلیم عجم (Pg. 274)
- Author : سیماب اکبرآبادی
- مطبع : رفاہ عام پریس، آگرہ (یوپی) (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.