شب وصل اپنے نگہباں ہوئے ہیں
شب وصل اپنے نگہباں ہوئے ہیں
پریشاں کیا ہے پریشاں ہوئے ہیں
مرے آگے غیروں سے پیماں ہوئے ہیں
یہ کم آپ کے مجھ پر احساں ہوئے ہیں
سمائے ہیں اپنے نگاہوں میں ایسے
جب آئینہ دیکھا ہے حیراں ہوئے ہیں
فرشتوں میں بھی شیخ صاحب کی گنتی
یہ رندوں کی صحبت میں انساں ہوئے ہیں
شب وصل کیا جانے کتنی بڑی تھی
بہت ان کے گیسو پریشاں ہوئے ہیں
کہاں میں نے لوٹی معاصی کی لذت
وہ کچھ بھی نہیں ہیں جو عصیاں ہوئے ہیں
کیا یوں جدا گوشت ناخن سے اس نے
کہ دل سے جدا دل کے ارماں ہوئے ہیں
مرا دم الجھتا ہے اے دست وحشت
مجھے پھانسی تار گریباں ہوئے ہیں
کچھ آوازیں آتی ہیں سنسان شب میں
اب ان سے بھی خالی بیاباں ہوئے ہیں
بڑی گہری چھنتی تھی نادان دل سے
بڑے یار غاران کے پیکاں ہوئے ہیں
مچی ہے بڑی دھوم اہل حرم میں
ریاضؔ آج شاید مسلماں ہوئے ہیں
- کتاب : ریاض رضواں (Pg. 319)
- Author : ریاضؔ خیرآبادی
- مطبع : کتاب منزل،لاہور (1961)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.