کسی پر پھر یہ دل آیا ہوا ہے
کسی پر پھر یہ دل آیا ہوا ہے
مرے قابو سے اب نکلا ہوا ہے
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
بلا کے پیچ میں آیا ہوا ہے
صفائی ہے ترے عارض کی ایسی
کہ آئینہ کو بھی سکتا ہوا ہے
بتوں پر رہتی ہے مائل ہمیشہ
طبیعت کو خدایا کیا ہوا ہے
چلے دنیا سے جس کی یاد میں ہم
غضب ہے وہ ہمیں بھولا ہوا ہے
وفا ہو یا جفا دونوں سے خوش ہیں
کریں کیا اب تو دل آیا ہوا ہے
حباب اس کا بنے گا چرخ اخضر
یہی قطرہ تو اب دریا ہوا ہے
غضب ہے تیرا بھولا پن مری جاں
اسی کا اک جہاں مارا ہوا ہے
صبا پھر گیسوؤں سے تیرے الجھی
بہار آئی اسے سودا ہوا ہے
چلا زاہد پہ فصل گل کا جادو
مرا یار آج کل بہکا ہوا ہے
کمی کرنے لگے آنسو ہمارے
یہ دریا اب بہت اترا ہوا ہے
پھر اس کوچہ کی جانب لے چلا دل
نہیں معلوم اس کو کیا ہوا ہے
پریشان رہتے ہو دن رات اکبرؔ
یہ کس کی زلف کا سودا ہوا ہے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 378)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.