وہ آنکھوں میں سرمہ دیا چاہتا ہے
وہ آنکھوں میں سرمہ دیا چاہتا ہے
کوئی فتنہ برپا ہوا چاہتا ہے
نقاب اس کے رخ سے اٹھا چاہتا ہے
صفائی کا عقدہ کھلا چاہتا ہے
وجود اس کا ثابت ہوا چاہتا ہے
مرا نقش ہستی مٹا چاہتا ہے
وہ بے پردہ مجھ سے ملا چاہتا ہے
حجاب دوئی اب اٹھا چاہتا ہے
چھڑا قصۂ ہجر پھر وصل کی شب
مرے ان کے جھگڑا ہوا چاہتا ہے
اجل جلد آ تیرا احسان ہوگا
وہ بالیں سے میری اٹھا چاہتا ہے
نہ پوچھ اے صنم حال خواہش کا اس کی
خدا جانے دل تجھ سے کیا چاہتا ہے
چلی ہے صبا نکہت زلف لے کر
چمن میں کوئی گل کھلا چاہتا ہے
بنے گھر مرا کیوں نہ فردوس اکبرؔ
وہ گل آکر اس میں بسا چاہتا ہے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 376)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.