سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
سرسری بھی ہے کارگر بھی ہے
یہ کٹاری بھی ہے نظر بھی ہے
کسے تاکا کسے کیا بسمل
او کماندار کچھ خبر بھی ہے
کون کہتا ہے گل نہیں سنتے
آہ بلبل میں کچھ اثر بھی ہے
گو مری داستاں ہے طول بہت
تم سنو تو یہ مختصر بھی ہے
مجمع البرزخین ہے انسان
یہ فرشتہ بھی ہے بشر بھی ہے
نظر ہے جو پسند آئے تمہیں
دل بھی موجود ہے جگر بھی ہے
وار تیری نگہ کا روکے کون
کہیں اس تیغ کی سپر بھی ہے
یہ بھی خدمت میں سر بلند رہے
آئینہ دار اک قمر بھی ہے
ان کے وعدوں کا کچھ یقین نہیں
گفتگو میں اگر مگر بھی ہے
غیر نے تیغ پر گلا نہ دھرا
کوئی میرا سا بے جگر بھی ہے
اٹھو اکبرؔ چلو مدینے کو
اس سے بہتر کوئی سفر بھی ہے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 314)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.