ترے فدائی کہیں اپنے سر کو دیکھتے ہیں
ترے فدائی کہیں اپنے سر کو دیکھتے ہیں
وہ تیری تیغ کو تیری کمر کو دیکھتے ہیں
الٰہی خیر یہ سامان کس کے قتل کا ہے
وہ تیغ دیکھتے ہیں پھر کمر کو دیکھتے ہیں
جدھر اشارہ ہو سجدے کا اس طرف یہ پھریں
نگاہ باز تمہاری نظر کو دیکھتے ہیں
وہ اپنی گھات میں ہیں اور اپنی گھات میں ہم
وہ دل کو اور ہم ان کی نظر کو دیکھتے ہیں
رہے خیال کہ ہم بھی کریں گے کل کچھ فکر
ہم آج اور تمہاری نظر کو دیکھتے ہیں
جدھر پھریں یہ ادھر صاف ہو گیا میداں
جناب روکئے آپ اس نظر کو دیکھتے ہیں
نکل ہی آئے کفن سر سے باندھ کر ہم بھی
بس آج آپ کی تیغ نظر کو دیکھتے ہیں
زمانہ ہو گیا ہے وقف انتظار اب تک
کھلی ہے آنکھ تری رہ گزر کو دیکھتے ہیں
تمہارے دانتوں کے آگے کسی کا مول نہیں
گہر شناس کہاں اب گہر کو دیکھتے ہیں
جو تیر آپ کے آئے لئے وہ سینہ پر
جناب آپ ہمارے جگر کو دیکھتے ہیں
خبر نہیں کہ بنائیں نشانہ وہ کس کو
کسی کے دل کو کسی کے جگر کو دیکھتے ہیں
تمہاری خاک قدم سے یہ لا مکاں بنا
ہم آج عرش پر اس ٹوٹے گھر کو دیکھتے ہیں
چلے عدم کو یہ گھر آج ہم سے چھٹتا ہے
نگاہ یاس سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
امیدوار ہیں سجدے کا حکم ہو جائے
کھڑے ہیں کب سے ترے سنگ در کو دیکھتے ہیں
ہجوم حشر کے میدان میں ہے میلا ہے
کھڑے ہیں اور سب اس فتنہ گر کو دیکھتے ہیں
بہار آئی یہ حالت ہے ہم سفیروں کی
کبھی قفس کو کبھی بال و پر کو دیکھتے ہیں
ہر ایک برگ یہ کہتا ہے شان تخم ہیں ہم
نگاہ غور سے جب ہم شجر کو دیکھتے ہیں
یہی وہ شب ہے شب ماہ نام ہے جس کا
ہم اپنے پہلو میں آج اس قمر کو دیکھتے ہیں
پری سے ہم کو غرض حور سے ہمیں مطلب
بشر سے آنکھ لڑی ہے بشر کو دیکھتے ہیں
ملائکہ کو نہ تھا ہوش یہ شب معراج
خدا کو دیکھتے ہیں یا بشر کو دیکھتے ہیں
ہمارا شغل یہی ہے بس اب تو اے اکبرؔ
درود پڑھتے ہیں خیر البشر کو دیکھتے ہیں
- کتاب : جذاباتِ اکبر (Pg. 70)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : آگرہ اخبار پریس، آگرہ (1915)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.