او آفت جاں تیری نظر اور ہی کچھ ہے
او آفت جاں تیری نظر اور ہی کچھ ہے
ان ترچھی نگاہوں کا اثر اور ہی کچھ ہے
یہ قلب جو آتا ہے نظر اور ہی کچھ ہے
دل جس سے غرض ہے وہ مگر اور ہی کچھ ہے
ظاہر میں تو یہ خاک بسر اور ہی کچھ ہے
انسان حقیقت میں مگر اور ہی کچھ ہے
بدنام کیا صحبت اغیار نے آخر
اب آپ کی لوگوں میں خبر اور ہی کچھ ہے
آج آپ کی ہیں اور ہی جانب کو نگاہیں
ہم دیکھ رہے ہیں یہ نظر اور ہی کچھ ہے
کعبے کے بھی در پر رگڑ آئے ہیں جبیں ہم
اس قبلۂ کونین کا در اور ہی کچھ ہے
مرنا بھی کوئی شئے ہے جو خوف اس سے کریں ہم
ہاں اے شب فرقت ترا ڈر اور ہی کچھ ہے
آنے سے تمہاری ہوئی رونق مرے گھر کی
دیواریں ہیں کچھ اور تو در اور ہی کچھ ہے
جس دن سے گلے میں ہے ترے موتیوں کا ہار
اس روز سے بازار گہر اور ہی کچھ ہے
پیدا ہوا انسان تو کچھ اور ہی شے تھا
اب حالت ہنگام سفر اور ہی کچھ ہے
آج آتے ہیں وہ آپ کے گھر کی طرف اکبرؔ
کچھ تم کو خبر بھی ہے خبر اور ہی کچھ ہے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 291)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.