اپنی ہستی کو ہم مٹاتے ہیں
اپنی ہستی کو ہم مٹاتے ہیں
یوں پتہ یار کا لگاتے ہیں
پھر انہیں ہم منائے لاتے ہیں
بات بگڑی ہوئی بناتے ہیں
سحر وصل ہے وہ جاتے ہیں
اب قضا کے پیام آتے ہیں
ہے پسند ان کو میری خلوت دل
ماشاء اللہ آتے جاتے ہیں
درد ہے نام درد الفت کا
چوٹ وہ ہے جو دل پہ کھاتے ہیں
کہتے ہیں آ کے نعش پر وہ میری
کس قدر نیند کے یہ ماتے ہیں
آپ جانے کا ذکر اب نہ کریں
متواتر مجھے غش آتے ہیں
شمع پر ہیں نثار پروانے
جلے جاتے ہیں لپٹے جاتے ہیں
اے شب ہجر تیری عمر دراز
کیوں ستارے یہ جھلملاتے ہیں
شمع کیوں ہو گئی ہے بے رونق
کیوں یہ پروانے چلتے جاتے ہیں
ہو گیا دل بھی ان کا جانب دار
ہاتھ اب اس سے ہم اٹھاتے ہیں
کوئے الفت میں راہبر دل ہے
پیچھے اکبرؔ ہم اس کے جاتے ہیں
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 195)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.