سلطان ملک دل ہے یہاں کا جو شاہ ہے
سلطان ملک دل ہے یہاں کا جو شاہ ہے
یہ بارگاہ عشق عجب بارگاہ ہے
یہ ضو نہ مہر کی نہ یہ نور ماہ ہے
تیرا جمال ہے یہ تری جلوہ گاہ ہے
اے دل پیام موت پہ ترچھی نگاہ ہے
اس تیر کا بچاؤ نہیں بے پناہ ہے
میرا دل شکستہ تری سیرگاہ ہے
بے شک گدا نواز تو اے بادشاہ ہے
ہے آستان پاک نبی عرش کا بھی عرش
دونوں جہان میں یہی اک بارگاہ ہے
رحمت کے واسطے بھی تو کچھ نذر چاہیے
اے عاصیو گناہ سے بچنا گناہ ہے
کہئے تو بند کرلے کوئی آنکھ کس طرح
کیا دیکھنا بھی آپ کی جانب گناہ ہے
ساقی ہے جوش رحمت حق کو پلائے جا
اب وہ گناہگار ہے جو بے گناہ ہے
دیکھو تو آکر اس دل پر داغ کی بہار
تم بھی کہو گے ہاں یہ کوئی سیرگاہ ہے
اپنے خیال میں یہ وہیں جا رہے ہیں سب
جو مل گیا ہمیں تو وہی خضر راہ ہے
رستہ عدم کے قافلے بھولے نہیں کبھی
سیدھے وہیں پہنچتے ہیں کیا خوب راہ ہے
ہے خضر کو بھی اس میں تلاش ایک خضر کی
کیا ہولناک وادئ الفت کی راہ ہے
اکبرؔ کے گھر کا آپ نشاں پوچھتے ہیں کیا
اس بے نوا فقیر کی وہ خانقاہ ہے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 310)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.