کیوں ان میں نظر بن کے سمایا نہیں جاتا
کیوں ان میں نظر بن کے سمایا نہیں جاتا
تم نور ہو اور آنکھوں میں آیا نہیں جاتا
غیروں سے تو کیا درد محبت کا بیاں ہو
یہ حال تو اپنوں کو سنایا نہیں جاتا
صورت گر اول نے کہا دیکھ کر اس کو
اس حسن کا انسان بنایا نہیں جاتا
اللہ رے بیمار محبت کا ترے ضعف
اب ہوش میں بھی آپ سے آیا نہیں جاتا
کوئی مرے صحرا میں قدم رکھ نہیں سکتا
مجنوں سے بھی اس دشت میں آیا نہیں جاتا
دامان کفن چہرے پہ یوں ڈال لیا ہے
منہ یاروں کو اس وقت دکھایا نہیں جاتا
رخسار جو ہیں سرخ تو رخ پر ہے پسینہ
رنگت کا بھی بوجھ ان سے اٹھایا نہیں جاتا
اب بھی شب وعدہ کی طرح عذر حنا ہے
ہم مرتے ہیں اور آپ سے آیا نہیں جاتا
دم توڑتا ہوں میں تمہیں جانے کی پڑی ہے
اس وقت تو یہ ناز اٹھایا نہیں جاتا
بت بن گئے ہم چل گیا جادو یہ بتوں کا
بت خانہ سے اب کعبہ کو جایا نہیں جاتا
اکبرؔ چلو سر خنجر قاتل پہ چڑھا دیں
اب ضعف سے یہ بار اٹھایا نہیں جاتا
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 79)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.