ملے اُسی سے جو ہو آدمی ٹھکانے کا
ملے اسی سے جو ہو آدمی ٹھکانے کا
تمہیں خبر نہیں کیا حال ہے زمانے کا
خیال آپ کو ہو میرے گھر میں آنے کا
کہاں نصیب یہ اپنے فقیر خانے کا
جمال اپنا دکھاؤ ہمارا دیکھو حال
مزا اسی میں ہے کچھ دیکھنے دکھانے کا
اجل ٹھہر ابھی جلدی نہ کر خدا کے لئے
کہ انتظار ہے ان کے جواب آنے کا
جو آپ آئیں تو ہم فرش بوریا بچھوائیں
دکھائیں تم کو تکلف غریب خانے کا
حضور آئے مرے گھر کی بڑھ گئی رونق
مزاج عرش پہ ہے اب فقیر خانے کا
پیا ہے تم نے ابھی جس میں شربت اے زاہد
کہاں لیا یہ ہے ساغر شراب خانے کا
چڑھے ہوئے ہیں بہت ان دنوں رقیب کے سر
جناب من یہ نتیجہ ہے سر چڑھانے کا
یہ کارگاہ جہاں ہے عجب حیرت زا
چلانے والا ہے کون ایسے کارخانے کا
رقیب کی بھی ہوا وہ نہیں رہی اکبرؔ
بگاڑ ہم سے موافق ہے اب زمانہ کا
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 32)
- Author :شاہ اکبر داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.