ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
یوں سفر کرتے ہیں دنیا سے گزرنے والے
آفتیں ڈھاتے ہیں دنیا میں سنورنے والے
لوٹے لیتے ہیں زمانے کو نکھرنے والے
بیٹھیں خوش ہو کے نہ غنچوں میں نکھرنے والے
سب کے سب مثل گل اک دن ہیں بکھرنے والے
آپ مٹ جائیں مگر رد نہ ہو سائل کا سوال
ہم تو ہیں قبر کا منہ خاک سے بھرنے والے
دیکھ اے قبر بدن ان کا نہ میلا ہو کہیں
دودھ کے دھوئے ہوئے ہیں یہ نکھرنے والے
نام سے راہ عدم کے ہمیں کیوں وحشت ہے
سب اسی راہ سے اک دن ہیں گزرنے والے
کھل گیا بھید ہمیں یار ترے گھونگٹ کا
منہ دکھاتے نہیں دل لے کے مکرنے والے
وصل کی فکر تو کی زور نہ قسمت سے چلا
کام وہ اور ہی ہوتے ہیں سنورنے والے
خوب دیکھی ہے اندھیری شب غم کی اکبرؔ
ہم نہیں تیرگی قبر سے ڈرنے والے
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 290)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.