گلشن میں اس نے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا
گلشن میں اس نے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا
بلبل کا ہوش رنگ گلوں کا اڑا دیا
یہ کہہ کے شیخ نے مجھے درس فنا دیا
باقی رہا وہ جس نے خودی کو مٹا دیا
تھا اپنی صنعتوں کا تماشہ جو دیکھنا
بازار کائنات میں میلا لگا دیا
رزاقیٔ خدا پہ ہے تکیہ فقیر کو
بیٹھے ہیں گھر میں کھاتے ہیں اللہ کا دیا
دل کس سے مانگتے ہو کہاں دل کہاں جگر
مدت ہوئی کہ خاک میں سب کو ملا دیا
اکبرؔ بلند کی مرے قاتل نے تیغ جب
میں نے سر نیاز قدم پر جھکا دیا
- کتاب : تجلیاتِ عشق (Pg. 53)
- Author : شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : شوکت شاہ جہانی، آگرہ (1896)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.