Font by Mehr Nastaliq Web

نظر ان کی مژگاں پہ ڈالے ہوئے ہیں

شاہ امین الدین قیصر

نظر ان کی مژگاں پہ ڈالے ہوئے ہیں

شاہ امین الدین قیصر

نظر ان کی مژگاں پہ ڈالے ہوئے ہیں

یہ نیزے مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں

حیا سے دو پٹہ سنبھالے ہوئے ہیں

مگر کچھ نہ کچھ وہ نکالے ہوئے ہیں

انہیں کی ہے حلقہ بگوشی کی خواہش

وہ کانوں میں بالے جو ڈالے ہوئے ہیں

جو سر سبز ہیں نخل باغِ وفا کے

محبت کی شاخیں نکالے ہوئے ہیں

اشاروں سے آنکھوں کے دم دے کے مجھ کو

نگاہوں سے دل لینے والے ہوئے ہیں

تعجب ہے ملتیں نہیں ان کی آنکھیں

یہ آہوئے شہری تو پالے ہوئے ہیں

جمے ہیں جو میخانے میں پائے رنداں

یہ دستِ سبو ہی سنبھالے ہوئے ہیں

نیا حشر رہتا ہے ان کے مکاں تک

قیامت کے پُر شور نالے ہوئے ہیں

کسی روز تڑپائے گا دردِ فرقت

ابھی تک تو دل ہم سنبھالے ہوئے ہیں

خوشی سے اچھلتا ہے ہاتھوں کلیجہ

گلے میں جو بانہیں وہ ڈالے ہوئے ہیں

بنی ظرف مے دم میں رندوں کی مٹی

کہ کاسے سروں کے پیالے ہوئے ہیں

کنشت وحرم میں انہیں کا ہے جلوہ

وہ دونوں گھروں کے اجالے ہوئے ہیں

بنے شیخ وزاہد بھی اس بت کے بندے

کہاں رام اللہ والے ہوئے ہیں

تصور ہے خونریز مژگان کا قیصرؔ

ستم گر یہ تُرکی رسالے ہوئے ہیں

مأخذ :

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے