نظر ان کی مژگاں پہ ڈالے ہوئے ہیں
نظر ان کی مژگاں پہ ڈالے ہوئے ہیں
یہ نیزے مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں
حیا سے دو پٹہ سنبھالے ہوئے ہیں
مگر کچھ نہ کچھ وہ نکالے ہوئے ہیں
انہیں کی ہے حلقہ بگوشی کی خواہش
وہ کانوں میں بالے جو ڈالے ہوئے ہیں
جو سر سبز ہیں نخل باغِ وفا کے
محبت کی شاخیں نکالے ہوئے ہیں
اشاروں سے آنکھوں کے دم دے کے مجھ کو
نگاہوں سے دل لینے والے ہوئے ہیں
تعجب ہے ملتیں نہیں ان کی آنکھیں
یہ آہوئے شہری تو پالے ہوئے ہیں
جمے ہیں جو میخانے میں پائے رنداں
یہ دستِ سبو ہی سنبھالے ہوئے ہیں
نیا حشر رہتا ہے ان کے مکاں تک
قیامت کے پُر شور نالے ہوئے ہیں
کسی روز تڑپائے گا دردِ فرقت
ابھی تک تو دل ہم سنبھالے ہوئے ہیں
خوشی سے اچھلتا ہے ہاتھوں کلیجہ
گلے میں جو بانہیں وہ ڈالے ہوئے ہیں
بنی ظرف مے دم میں رندوں کی مٹی
کہ کاسے سروں کے پیالے ہوئے ہیں
کنشت وحرم میں انہیں کا ہے جلوہ
وہ دونوں گھروں کے اجالے ہوئے ہیں
بنے شیخ وزاہد بھی اس بت کے بندے
کہاں رام اللہ والے ہوئے ہیں
تصور ہے خونریز مژگان کا قیصرؔ
ستم گر یہ تُرکی رسالے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.