نہ نکلا دل الجھ کر یار کی زلفِ معنبر سے
نہ نکلا دل الجھ کر یار کی زلفِ معنبر سے
رہی لپٹی ہوئی گویا پریشانی مقدر سے
نہ مارا اُس نے پتھر سے بھی مجھ کو اپنے کوچے میں
مقدر دیکھئے اغیار پر پھولوں کے مینہ برسے
ہمارا دل دکھانا ہے حسینوں کے لئے آساں
بھویں ہیں بڑھ کے خنجر سے نگاہیں تیر نشتر سے
کسی پر یہ عنایت اور کسی سے بے رخی ساقی
اڑائے خم کی خم کوئی کوئی اک جام کو ترسے
نہیں ہے احتیاج غسلِ میت ان شہیدوں کو
ترے مقتل میں نہلائے گئے جو آبِ خنجر سے
قمر شرمندہ ہے ابر سیہ بھی پانی پانی ہے
ترے روئے منور سے تری زلفِ معنبر سے
تڑپ کا لطف آئے حسرتیں دل کی نکل جائیں
رگِ گردن پھڑک اٹھے گلے مل مل کے خنجر سے
حسینوں کی ادائیں بھی زمانے سے انوکھی ہیں
کہ چہرے پھول سے نازک کلیجا سخت پتھر سے
تمہارے عاشقِ مژگاں و ابرو ڈر نہیں سکتے
کٹاری سے چھری سے تیغ سے پیکاں سے نشتر سے
کفن سر سے لپیٹے جا رہے ہو تم کہاں اشرفؔ
کہ بہرِ امتحاں قاتل ابھی نکلا نہیں گھر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.