چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
ہم سے تو بت کافر بہ خدا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں
جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس آئینہ رو کے وصل میں بھی مشتاق بوس و کنار رہے
اے عالم حیرت تیرے سوا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دل کوئے بتاں میں جا بیٹھا دم خانۂ تن کو چھوڑ گیا
حیف آخر کار رفیق اپنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
یا بہر طواف کعبہ گئے یا معتکف بت خانہ ہوئے
کیا شیخ و برہمن ہم نے کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
کھینچ اس کو نہ لایا جذبۂ دل تاثیر نہ کچھ نالے ہی نے کی
میں دونوں کا شاکی ہی رہا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس لب کا لیا بوسہ نہ کبھو ہیہات نہ لپٹا پاؤں سے
دل تجھ سے برنگ پان و حنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
مجنوں تو پھرا جنگل جنگل فرہاد نے چیرا کوہ دلا
میں آہ رہا بے دست و پا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دن کو بھی نہ دیکھا ہم نے اسے شب خواب میں بھی یارو نہ ملا
اس طالع خفتہ کا ہووے برا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
نزدیک نصیرؔ اپنے آساں فرمائش تھی گویا یہ غزل
کچھ اس کا بھی کہنا مشکل تھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 344)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.