پھینک کر برچھی نگہ کی دل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
پھینک کر برچھی نگہ کی دل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
ماہیٔ دریا نہیں ساحل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
نقش نور مہر ہے اختر جو اس کے منہ چڑھے
اس قدر دور آپ کو اک تل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
قابل صحبت تمہارے اور ہیں ہیہات آپ
ہاتھ کو میرے سر محفل یہ کیوں کھینچے ہیں آپ
دیکھو کوئے یار میں مت حضرت دل راہ اشک
انتظار قافلہ منزل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
خانۂ تن میں مرے سہمی ہے جاں ابرو کماں
تیر مژگاں دیکھ بھال اس دل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
ساربان فاقۂ لیلیٰ سے کیا کہتا ہے قیس
آج ڈورے پردۂ محمل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
کوئی دم دنیا کی اس کو اور کھانے دو ہوا
تیغ بسم اللہ کہہ بسمل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
نقش بٹھلانا دل شیریں پہ تھا اے کوہ کن
اس کا نقشہ سنگ کی اس سل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
کوئی اس کا ہو گریباں گیر یہ کہتا نہیں
باغباں دامان گل کو گل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
تم تو دانا ہو کہیں کیا اے نصیرؔ اتنا یہ رنج
مزرعہ دنیائے لا حاصل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 394)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.