Font by Mehr Nastaliq Web

جب کہ چشم سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم

شاہ نصیر

جب کہ چشم سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم

شاہ نصیر

جب کہ چشم سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم

خاک میں ہم کو برس صورت ملا جاتے ہو تم

شعلۂ آتش سراپا بن کے اے گلگوں قبا

آگ میرے دل میں در پردہ لگا جاتے ہو تم

کان کا بالا ہے یا گرداب بحر حسن ہے

کشتئ دل کو جو میری اب ڈبا جاتے ہو تم

چھوڑ دو اے حضرت دل ان کی زلفوں کا خیال

ہر کسی کے دام میں بے وجہ آ جاتے ہو تم

ہار پھولوں کا پہنتے ہو تو ہم بستر بھی ہو

ورنہ انگاروں پہ کیوں مجھ کو لٹا جاتے ہو تم

جلوۂ قامت تمہارا کم قیامت سے نہیں

فتنۂ خوابیدہ کو آ کر جگا جاتے ہو تم

سر پٹکتے ہیں پڑے ہم حلقۂ در کی طرح

چاک در سے جب کبھی آنکھیں لڑا جاتے ہو تم

کان کا موتی چھپاؤ طفل ناداں ہے یہ دل

اس کو لولو سے ہمیشہ کیوں ڈرا جاتے ہو تم

چین سے سونے دو ٹک آسودگان خاک کو

سر پہ اک شور قیامت کیوں اٹھا جاتے ہو تم

ہوں گرفتار قفس اے ہم صفیران چمن

نالہ ہائے زار کیوں اپنے سنا جاتے ہو تم

کیوں نہ ہنس ہنس کر جلوں جوں کاغذ آتش زدہ

جس تماشے کے لیے مجھ کو جلا جاتے ہو تم

جان کھو بیٹھے گا اپنی یہ نصیرؔ خستہ دل

اس کے پہلو سے اب اٹھ کر گھر کو کیا جاتے ہو تم

مأخذ :
  • کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ - حصہ دوم مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 295)
  • Author : شاہ نصیرؔ
  • مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
  • اشاعت : First

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے