جب کہ چشم سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم
جب کہ چشم سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم
خاک میں ہم کو برس صورت ملا جاتے ہو تم
شعلۂ آتش سراپا بن کے اے گلگوں قبا
آگ میرے دل میں در پردہ لگا جاتے ہو تم
کان کا بالا ہے یا گرداب بحر حسن ہے
کشتئ دل کو جو میری اب ڈبا جاتے ہو تم
چھوڑ دو اے حضرت دل ان کی زلفوں کا خیال
ہر کسی کے دام میں بے وجہ آ جاتے ہو تم
ہار پھولوں کا پہنتے ہو تو ہم بستر بھی ہو
ورنہ انگاروں پہ کیوں مجھ کو لٹا جاتے ہو تم
جلوۂ قامت تمہارا کم قیامت سے نہیں
فتنۂ خوابیدہ کو آ کر جگا جاتے ہو تم
سر پٹکتے ہیں پڑے ہم حلقۂ در کی طرح
چاک در سے جب کبھی آنکھیں لڑا جاتے ہو تم
کان کا موتی چھپاؤ طفل ناداں ہے یہ دل
اس کو لولو سے ہمیشہ کیوں ڈرا جاتے ہو تم
چین سے سونے دو ٹک آسودگان خاک کو
سر پہ اک شور قیامت کیوں اٹھا جاتے ہو تم
ہوں گرفتار قفس اے ہم صفیران چمن
نالہ ہائے زار کیوں اپنے سنا جاتے ہو تم
کیوں نہ ہنس ہنس کر جلوں جوں کاغذ آتش زدہ
جس تماشے کے لیے مجھ کو جلا جاتے ہو تم
جان کھو بیٹھے گا اپنی یہ نصیرؔ خستہ دل
اس کے پہلو سے اب اٹھ کر گھر کو کیا جاتے ہو تم
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ - حصہ دوم مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 295)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.