مری آہ جگر سے کیوں نہ ہووے اب اثر پیدا
مری آہ جگر سے کیوں نہ ہووے اب اثر پیدا
وہیں تو شیر رہتا ہے جہاں ہوتا ہے سر پیدا
تمنا عشق کی رکھنا غلط فہمی ہے پیری میں
کہیں افسردہ خاکستر سے ہوتا ہے شرر پیدا
رگ جاں کے تئیں مجنوں کی کیا فصاد پہچانے
مژہ سے چشم لیلیٰ کے ہے اس کو نیشتر پیدا
تعین سے نکل اس بیضۂ افلاک کے اے دل
تہیہ عرش پر اڑنے کا ہے کر بال و پر پیدا
خدا حافظ ہے بحر عشق میں اس دل کی کشتی کا
کہ ہے چین جبین یار سے موج دگر پیدا
گدا کو کیوں نہ سیاحی کی لذت ہو کہ ہوتا ہے
نیا دانہ نیا پانی نیا اک اور گھر پیدا
یہاں تک خاک کا رتبہ ہے اس عالم میں اب جس سے
کیا ہے شیشۂ ساعت نے اسباب سفر پیدا
دھرا ہے اشک کس کی چشم میں جز دیدۂ عاشق
نہیں دیکھا ہے یہ ہر اک صدف سے ہو گہر پیدا
فقط کچھ طور پر جلوہ نہ تھا آئینے میں بھی ہے
نصیرؔ اس کی تجلی ہے بہ آئین دگر پیدا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 223)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.