کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا
بادۂ گلگوں کا ساگر تھا چھلک کر رہ گیا
دل سواد زلف میں ڈھونڈھے ہے رستہ مانگ کا
راہ جو بھولا مسافر سو بھٹک کر رہ گیا
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ
میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا
ہمرہاں پہنچے کبھی کے منزل مقصود کو
دو قدم چلتے ہی میں ہیہات تھک کر رہ گیا
جوں قفس میں بلبل شوریدہ سر تڑپے ہے آہ
سینۂ صد چاک میں یوں دل پھڑک کر رہ گیا
شاید اس آئینہ رو کے ہے بھرا دل میں غبار
خاک عاشق پر جو وہ دامن جھٹک کر رہ گیا
سرخ قشقہ اس بت مدہوش کی پیشانی پہ دیکھ
تا فلک شعلہ مرے دم سے بھڑک کر رہ گیا
کیا ہی ابتر ہے نہ سویا طفل اشک اے مردماں
پنجۂ مژگاں سے میں اس کو تھپک کر رہ گیا
اڑ گئے کبک دری کے ہوش تو کب کے تھے لیک
جب تری رفتار کو دیکھا بھٹک کر رہ گیا
ایک دم کی بھی ملی فرصت نہ گھائل کو ترے
تیغ کے لگتے ہی بس وہ تو سسک کر رہ گیا
تاب اس بالے کے موتی کی نہیں کیا زلف میں
اے دل آشفتہ سچ کہہ کیوں تو تک کر رہ گیا
سر زمین شام میں تارا گرا ہے ٹوٹ کر
یا اندھیری رات میں جگنو چمک کر رہ گیا
طرفہ العین اس کی مژگاں کے تصور سے نصیرؔ
خار سا آنکھوں میں میری کچھ کھٹک کر رہ گیا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 260)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.