بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا
بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا
ہاتھ لگ جائے تو دوں میں تجھ کو چوروں کو حنا
اہل دنیا کے کب آیا رنگ درویشی کا ہاتھ
کیا لگانا چاہئے ہاتھوں میں گوروں کو حنا
اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے ہم رنگی کرے
دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا
سرخ رو مہندی لگا کر کیا ہو معشوق حبش
جب لگانے بیٹھے تو ہاتھوں میں گوروں کو حنا
در پہ لگواتا ہے گر اپنے شہیدوں کی سبیل
تو پھر اے قاتل لگا تو آب خوروں کو حنا
ناخن انگشت دست مہوشاں کو کر کے سرخ
مثل اخگر کر دکھاتی ہے چکوروں کو حنا
رکھ دل پر داغ مت اس کا خیال خط سبز
پاؤں سے ملتے نہیں دیکھا ہے موروں کو حنا
دل سے تو پس جائے سر سے قصد پا بوسی کرے
گر ترے آنکھوں کے دیکھے سرخ ڈوروں کو حنا
مت ملا مہ طلعتوں سے ہاتھ کیوں تڑوائے ہے
پنجۂ خورشید سے پوچھ ان کے زوروں کو حنا
جوں رگ برگ گل احمر بنا دے ہے یہاں
دو گھڑی میں اس کے ہر ناخن کی کوروں کو حنا
مہر و مہ رنگ شفق سے سرخ ہیں یہ صبح و شام
ملتے ہیں خون جگر دیکھ ان سکوروں کو حنا
دزدیٔ رنگ حنائی جو کرے ہیں اے نصیرؔ
دے ہے ہاتھوں ہاتھ بندھوا ایسے چوروں کو حنا
- کتاب : کلیات شاہ نصیرؔ مرتب: تنویر احمد علوی (Pg. 301)
- Author : شاہ نصیرؔ
- مطبع : مجلس ترقی ادب، لاہور (1971)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.