تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا
وہ جو نقش پا کی طرح ہی تھی نمود اپنے وجود کی
سو کشش سے دامن نازکی اسے بھی زمیں سے مٹا دیا
کہاں چین خواب عدم میں تھا نہ تھا زلف یار کا خیال
سو جگا کے شور نے مجھے اس بلا میں پھنسا دیا
ذرا چھپ نگاہ رقیب سے پڑی اس گلی میں تھی میری خاک
تو نے ایک جھونکے میں اے سبا اسے بھی واں سے اڑا دیا
رگ و پے میں آگ بھڑک اٹھی پھونکے ہے پڑا سبھی تن بدن
مجھے ساقیا مئے آتشیں کا یہ جام کیسا پلا دیا
یہ نہال شعلۂ حسن کا تیرا بڑھ کے سر بہ فلک ہوا
میری کاہ ہستی سے مشتعل ہوا سے یہ نہ نشوونما دیا
جب ہی جاکے مکتب عشق میں سبق مقام فنا لیا
جو لکھا تھا پڑھا نیازؔ نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.