شعلہ مرے نالوں کا تو پہنچا نہ کہیں آج
شعلہ مرے نالوں کا تو پہنچا نہ کہیں آج
کیوں کُدنے لگا بن کے دھواں چرخ بریں آج
آئی تھی سر بزم وہ کھولے ہوئے زلفیں
سر پیٹتے ہیں ہم کو بلائیں بھی نہ لیں آج
بہزاد کا کس طرح سے چہرہ نہ اترتا
مانی کو بلادی تری تصویر نے چیں آج
کیا رنج ہے کیوں بیٹھی ہو خاموشی جو پوچھا
فرمایا طبیعت نہیں لگتی ہے کہیں آج
کچھ کہتا ہے اور منہ سے نکلتا ہے ترے کچھ
ہوتا نہین قاصد تری باتوں کا یقیں آج
دیکھیں تو مزا لوٹتا ہے کون شب وصل
میں گھات میں بیٹھا ہوں عدوزیر کمیں آج
پھر کل تو مرا ہاتھ ہے اور یار کا دامن
سر سے مرے ٹل جائے شب ہجر کہیں آج
یا حضرت سجاد ہے شوقؔ آپ کا خادم
کل حشر میں اس کے تمہیں مالک ہو تمہیں آج
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.