Font by Mehr Nastaliq Web

پھراتی ہے جنوں میں اے قضا مجھ کو قدر در در

صوفی منیری

پھراتی ہے جنوں میں اے قضا مجھ کو قدر در در

صوفی منیری

پھراتی ہے جنوں میں اے قضا مجھ کو قدر در در

کہاں ہے تو کہ کھولوں اس کے کوچہ میں کمر مر مر

ترا عشوہ ہے وہ قاتل کہ تعریف اس کی کرتی ہے

زبان تیغ ابرو سے تری فتح و ظفر فر فر

خوشی سے نوش کر جاتے ہیں عاشق موت کی تلخی

تمہارے نام سے کام ودہن کو پر شکر کر کر

کسی منتر سے ہاتھ آتا نہیں شلوار بند اس کا

نکل جاتا ہے بل کھا کھا کے یہ مار دوسر سر سر

نہیں ہے کوئی دل ایسا ترا جلوہ نہ ہو جس میں

کیا ہےتیرے پر تونے برنگ ماہ گھر گھر گھر

پٹک کر سر کو مر مر جائیں گے غیرت سے اب عاشق

کہ سنگ آستاں تیرا ہے اے رشک قمر مر مر

کرے اللہ فضل اپنا اسی میں خیر ہے ورنہ

بشر کے ساتھ شر ہے کیا ہے انجام بشر شر شر

نہ رکھنا پاؤں راہ عشق میں سر اس میں جاتا ہے

ہزاروں سر سے گذرے ہیں قدم صوفیؔ ادھر دھر دھر

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے