پھراتی ہے جنوں میں اے قضا مجھ کو قدر در در
پھراتی ہے جنوں میں اے قضا مجھ کو قدر در در
کہاں ہے تو کہ کھولوں اس کے کوچہ میں کمر مر مر
ترا عشوہ ہے وہ قاتل کہ تعریف اس کی کرتی ہے
زبان تیغ ابرو سے تری فتح و ظفر فر فر
خوشی سے نوش کر جاتے ہیں عاشق موت کی تلخی
تمہارے نام سے کام ودہن کو پر شکر کر کر
کسی منتر سے ہاتھ آتا نہیں شلوار بند اس کا
نکل جاتا ہے بل کھا کھا کے یہ مار دوسر سر سر
نہیں ہے کوئی دل ایسا ترا جلوہ نہ ہو جس میں
کیا ہےتیرے پر تونے برنگ ماہ گھر گھر گھر
پٹک کر سر کو مر مر جائیں گے غیرت سے اب عاشق
کہ سنگ آستاں تیرا ہے اے رشک قمر مر مر
کرے اللہ فضل اپنا اسی میں خیر ہے ورنہ
بشر کے ساتھ شر ہے کیا ہے انجام بشر شر شر
نہ رکھنا پاؤں راہ عشق میں سر اس میں جاتا ہے
ہزاروں سر سے گذرے ہیں قدم صوفیؔ ادھر دھر دھر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.