ہوں مست چشم جاناں جام شراب کیا ہے
ہوں مست چشم جاناں جام شراب کیا ہے
عاشق صدا جواں ہے عہد شباب کیا ہے
بارش ہے فصل گل ہے توبہ کا آج قل ہے
گردش میں جام مل ہے یاں آفتاب کیا ہے
گر یار مئے پلائے آنکھیں ذرا ملائے
پھر شیخ سرہلائے توبہ یہ تاب کیا ہے
گرم اپنا راز داں ہے تو اہل کارواں ہے
اے اشک دل کہاں ہے خوں ہے کہ آب کیا ہے
ناصح پہ کیا پڑی ہے کیوں گریہ ہر گھڑی ہے
کس سے نظر لڑی ہے کہئے جناب کیا ہے
دے جام بادہ پیہم کیا باز پرس کا غم
ہیں کس شمار میں ہم اپنا حساب کیا ہے
اس برق وش پہ مائل اور اس کے ہی مقابل
کیوں مضطرب نہ ہو دل یہ اضطراب کیا ہے
سنتے ہیں وہ مری کب کچھ حال دل کہا جب
کہتے ہیں کہئے مطلب اس کا جواب کیا ہے
لیتا ہے واعظ اجرت پیشے میں کیا قباحت
مئے کی کرو تجارت صوفیؔ حجاب کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.