سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے
سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے
زباں میں چاشنی دل ٹوٹنے سے آئی ہے
جدھر سے میرا بدن دھوپ چاٹ کر گزرا
ہوائے سرد اسی راستے سے آئی ہے
تڑپتا میں ہوں پسینہ ہے اس کے ماتھے پر
شکست دل کی صدا آئنے سے آئی ہے
کھلا ثبوت ہے یہ دشمنوں کے شب خوں کا
کہ دھول ٹھہرے ہوئے قافلے سے آئی ہے
سفر میں ساتھ مرا اور کوئی کیا دیتا
ہوا بھی میری طرف سامنے سے آئی ہے
سحر نے مجھ کو مظفرؔ نہیں کیا صیقل
مری نظر میں چمک رت جگے سے آئی ہے
- کتاب : کلام مظفر وارثی (Pg. 50)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.