نہ ہی منزل کہیں دیکھے نہ تھا رستہ عیاں اپنا
نہ ہی منزل کہیں دیکھے نہ تھا رستہ عیاں اپنا
کہاں لے کر چلا ہوں دیکھ یہ ٹوٹا مکاں اپنا
سلگتی رہ گزر بے مہر موسم تشنگی دل کی
مگر یہ عشق پھر بھی مانتا ہے کارواں اپنا
کبھی جو آندھیوں میں بھی ترا بن کر کھڑا تھا میں
تبھی ویران نگری میں جلایا آشیاں اپنا
وہ جس کی بے رخی نے آج مجھ کو توڑ ڈالا ہے
اسی کے نام کر آیا تھا کل تک آسماں اپنا
کفن تک نوچ لے جاتے ہیں دنیا والے قبروں سے
سجا کر کس لیے رکھا تھا ہم نے یہ جہاں اپنا
نہ آیا خواب میں بھی وہ نہ لوٹی چٹھیاں اس کی
اجڑ کر رہ گیا دل سے وفاؤں کا جہاں اپنا
مجھے کچھ فکر تھی اس کی اسے کچھ غم نہیں میرا
مٹا کر میں ہی بیٹھا تھا تسلی کا نشاں اپنا
مرے آنسو مری آہیں مری تنہائیاں دیکھو
کسی دن لوٹ کر آنا یہی ہے امتحاں اپنا
مٹا ڈالا سبھی نے پر نہ مٹ پایا ابھی امجدؔ
لکھا رہتا ہے ہر صفحہ پہ جیسے اک نشاں اپنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.