دعا اور نہ کوئی دوا چاہتا ہوں
دعا اور نہ کوئی دوا چاہتا ہوں
دل غم طلب کی بقا چاہتا ہوں
تڑپنے دو جی بھر کے فرقت میں مجھ کو
میں اپنے کئے کی سزا چاہتا ہوں
سنا ہے فنا میں حصول بقا ہے
کسی کی طلب میں مٹا چاہتا ہوں
پرستش مری بے نیاز جزا ہے
کسی کو میں بے مدعا چاہتا ہوں
مجھے زندگی سے نہیں کوئی مطلب
فقط درد دل کی دوا چاہتا ہوں
بیک جلوہ جس نے حسنؔ مار ڈالا
وہی دلبری کی ادا چاہتا ہوں
- کتاب : دبستانِ عظیم آباد (Pg. 86)
- مطبع : نکھار پریس مئو ناتھ بھنجن (1982)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.