نمایاں خانہ بربادی کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
نمایاں خانہ بربادی کے ساماں ہوتے جاتے ہیں
اجڑتے ہیں مکاں آباد زنداں ہوتے جاتے ہیں
بہت کام آ رہا ہے امتداد عہد دشواری
کہ جتنے کام مشکل تھے سب آساں ہوتے جاتے ہیں
ہزاروں پیکر امید نظروں سے ہوئے اوجھل
جو کچھ باقی رہے تھے وہ بھی پنہاں ہوتے جاتے ہیں
ادھر تحصیل عقبیٰ کی تمنا ہے مرے دل میں
ادھر دنیا سے لاکھوں عہد و پیماں ہوتے جاتے ہیں
نگاہ یاس نے دنیا بدل دی آرزوؤں کی
نمایاں خود بخود سب راز پنہاں ہوتے جاتے ہیں
یہ کس انداز سے کس شان سے دور بہار آیا
کہ دامن چاک ہو ہو کر گریباں ہوتے جاتے ہیں
نظر آتی ہیں لاکھوں حسرتیں مدفون ہر جانب
دل عشاق اب گنج شہیداں ہوتے جاتے ہیں
دکھایا ہے اثر مسعودؔ اب میری وفاؤں نے
جفا سے دل میں وہ کچھ کچھ پشیماں ہوتے جاتے ہیں
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 287)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.