کہنے کو تو کیا کچھ تیرے جلووں میں نہیں ہے
کہنے کو تو کیا کچھ تیرے جلووں میں نہیں ہے
بے درد بتا میری تمنا بھی کہیں ہے
اتنا تو سمجھتا ہوں کہ سجدہ میں جبیں ہے
ایسا تو نہیں منزل مقصود یہیں ہے
سجدے کے لئے کیوں میری بیتاب جبیں ہے
اب تیرے تصور میں نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
اک جلوہ رنگیں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
نادیدہ نگاہوں کو یہ دنیا ہے وہ دیں ہے
ہر ذرے میں ہونے کا ترے مجھ کو یقیں ہے
دنیا سے تو نہاں ہے مگر مجھ سے نہیں ہے
تو ڈھونڈ رہا ہے حرم و دیر میں جس کو
زاہد مرے ٹوٹے ہوئے دل میں وہ مکیں ہے
اللہ رے اس دیدہ حیراں کی مصیبت
جس نے تجھے دیکھا بھی ہے دیکھا بھی نہیں ہے
اتنی بھی نہ مایوس شب غم ہو کسی کی
مرنا بھی میسر نہیں جس کا کہ یقیں ہے
کچھ منزلیں یہ بھی رہ عرفاں میں تھیں شاید
اب دل کو خیال حرم و دیر نہیں ہے
ہاں بندگیٔ شوق کے جوہر نہ مٹیں گے
ہر ذرے میں پنہاں مری تصویر جبیں ہے
یہ ربط کہ بے تیرے نہیں مجھ کو ذرا چین
یہ ضبط کہ گویا مجھے الفت بھی نہیں ہے
یہ بعد کہ ہستی تری اب تک نہ میں سمجھا
یہ قرب کہ حائل رگ گردن بھی نہیں ہے
فطرت کبھی وعدہ شکنی کی بھی ہے بدلی
تم پوچھتے ہو مجھ سے تو کہتا ہوں یقیں ہے
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے میں کیا ان کو بتاؤں
گویا مری امید کی صورت ہی نہیں ہے
سجدوں کی مرے شرم ہے اللہ ترے ہاتھ
ہر ذرہ ذرہ اس کا طلب گار نہیں ہے
وارستگی دل کا ہو کیوں کر مجھے دعوی
کس طرح کہوں تیری تمنا بھی نہیں ہے
پیوست ہے رگ رگ میں مری تیری تمنا
تو ہاتھ جہاں رکھ دے ترا درد وہیں ہے
معلوم نہیں اب بھی حجابات ہیں کتنے
ہادیؔ تجھے کیا جلوۂ جاناں کو یقیں ہے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد گیارہویں (Pg. 325)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.