تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منہ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
پاؤں یا رب مجھے تاج سر منزل دینا
ہاتھ بھی گردن مقصد میں حمائل دینا
غیر ظاہر نہ مظاہر کی حقیقت سمجھوں
اتنی تمییز میان حق و باطل دینا
ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں
کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا
رشک خورشد جہاں تاب دیا دل مجھ کو
کوئی دلبر بھی اسی دل کے مقابل دینا
اصل فتنہ ہے قیامت میں بہار فردوس
جز ترے کچھ بھی نہ چاہے مجھے وہ دل دینا
تیری الفت میں اسی طرح رہوں میں بے حال
حال دینا ہو اگر رحم کے قابل دینا
ہائے رے ہائے تری عقدہ کشائی کے مزے
تو ہی کھولے جسے وہ عقدۂ مشکل دینا
خوں فشانی ہو مری آئنہ روئے فنا
دونوں آنکھوں کو رگ گردن بسمل دینا
ناتوانی میں سہارے کو ہے یہ ہی کافی
دامن لطف غبار پس محمل دینا
سر دشمن سے کہیں آگ بھڑکتے دیکھی
شمع ساں مجھ کو سر افرازی محفل دینا
تہمت دل دہیٔ غیر ہوس کیش غلط
آپ معشوق ہیں کیا جانیں بھلا دل دینا
نقد جان و دل ادھر دولت دیدار ادھر
ان کو لینا بہت آسان ہے مشکل دینا
رہ کے آغوش میں اے بحر کرم عاشق کو
قسمت سوختۂ سبزۂ ساحل دینا
تنگیٔ غنچۂ پژمردہ ہو صحرائے وسیع
اس قدر کلفت افسردگیٔ دل دینا
وعدہ کرنے سے بھی تنگیٔ دہن نے روکا
بوسہ کیسا کہ زبان ان کو ہے مشکل دینا
درد کا کوئی محل ہی نہیں جب دل کے سوا
مجھ کو ہر عضو کے بدلے ہمہ تن دل دینا
آسیؔ زار میں کچھ ضعف سے حالت نہ رہی
درد دینا ہو تو برداشت کے قابل دینا
- کتاب : دیوان آسیؔ (Pg. 17)
- Author : آسیؔ غازیپوری
- مطبع : سبحان اللہ عظیم گورکھپوری (1938)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.