توڑ کر عہد اپنا وہ بد عہد چلتا ہو گیا
توڑ کر عہد اپنا وہ بد عہد چلتا ہو گیا
میں تو کیا سمجھا ہوا تھا یا خدا کیا ہو گیا
عاشقوں سے بھی کبھی دنیا نہیں خالی رہی
میں نے پردہ کر لیا تو قیس پیدا ہو گیا
دیکھ کر آئینہ سجدے شکر کے کرتا ہے قیس
یعنی کل مجنوں تھا میں اور آج لیلیٰ ہو گیا
میرے دل کو ہر طرف سے ان بتوں نے ڈھا دیا
ہائے یہ اللہ کا گھر تھا جو صحرا ہو گیا
تھی بشر کے واسطے بازار دنیا کی نمود
دیکھنے آیا تماشہ خود تماشہ ہو گیا
دیکھ کر اس حور کو پریاں بھی یہ کہنے لگیں
یہ حسیں انساں پریوں کا تماشہ ہو گیا
لکھ گیا دیوانوں کی فہرست میں میرا بھی نام
شکر ہے اس زلف عنبر بو کا سودا ہو گیا
دیکھتا ہی رہ گیا میں مشتری کا اپنے منہ
چھین کر ہاتھوں سے میرا دل وہ چلتا ہو گیا
دو حسینوں میں مرے دل کے لئے تکرار ہے
دام اتنے بڑھ گئے آپس میں جھگڑا ہو گیا
ایک معشوقہ تو دنیا دوسرا دین متین
اب جسے دے دے خدا میں تو خدا کا ہو گیا
خیر ہو عشاق کی صف میں ہے کیوں اکبرؔ کھڑا
متقی انسان تھا یہ آج اسے کیا ہو گیا
- کتاب : جذباتِ اکبر (Pg. 27)
- Author :شاہ اکبرؔ داناپوری
- مطبع : آگرہ اخبار پریس، آگرہ (1915)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.