تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو
یہ تو کہنے ہی کی باتیں ہیں کہاں سنتے ہو
چاہ کا ذکر تمہاری میں کیا کس آگے
کون کہتا ہے کہو کس کی زباں سنتے ہو
کشش عشق ہی لائی ہے تمہیں یاں ورنہ
آپ سے تھا نہ مجھے یہ تو گماں سنتے ہو
ایک شب میرا بھی افسانۂ جاں سوز سنو
قصے اوروں کے تو اے جان جہاں سنتے ہو
وہ گل اندام جو آیا تو خجالت سے تمام
زرد ہو جاؤ گے اے لالہ رخاں سنتے ہو
ایک کے لاکھ سناؤں گا خبردار رہو
اس طرف آئی اگر طبع رواں سنتے ہو
آج کیا ہے کہو کیوں ایسے خفا بیٹھے ہو
اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو
کون ہے کس سے کروں درد دل اپنا اظہار
چاہتا ہوں کہ سنو تم تو کہاں سنتے ہو
یہ وہی شوخ ہے آتا ہے جو بیدارؔ کے ساتھ
جس کو غارت گر دل آفت جاں سنتے ہو
- کتاب : دیوان بیدارؔ مرتبہ: جلیل احمد قدوائی (Pg. 75)
- Author : میر محمد بیدارؔ
- مطبع : ہندوستانی اکادمی الہ آباد (1937)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.