تمہیں کو جانا تمہیں کو سمجھے تمام عالم سے تنگ ہو کر
تمہیں کو جانا تمہیں کو سمجھے تمام عالم سے تنگ ہو کر
دوئی کا وحدت میں دخل کیسا رہے ہمیشہ اکنگ ہو کر
نہاں تھا آنا کہ ہو نہ ظاہر عیاں تھا جانا کہ سب ہوں باہر
وہ دل میں آئے امنگ ہو کر گئے تو چہرے کا رنگ ہو کر
غضب ہے انساں دم مصیبت کرے جو انساں سے بے وفائی
کہ دیکھو چکی کی پاٹ کیسے بہم ہیں گردش میں سنگ ہو کر
نہ کور باطن ہو اے برہمن ذرا تو چشم تمیز وا کر
خدا کا بندہ بتوں کو سجدہ خدا خدا کر خدا خدا کر
جو اٹھ کے پہلو سے انجمن میں وہ دور بیٹھے ہیں مجھ سے جا کر
تڑپ نے درد جگر کے دل کو پٹک دیا ہے اٹھا اٹھا کر
جو آنکھ کھولی تو کچھ نہ دیکھا سحر کو سنسان سب سرا تھی
ہوا نہ ہم راہیوں سے اتنا کہ ساتھ لیتے مجھے جگا کر
نہ بھول اس زندگی پہ غافل نہیں ہے کچھ اعتبار اس کا
کہ راہ لے گی یہ اپنی اک دن عدم کا رستہ تجھے بتا کر
اسی کا ہے رنگ یاسمن میں اسی کی بو باس نسترن میں
جو کھڑکے پتا بھی اس چمن میں خیال آواز آشنا کر
بلا ہے حرص و ہوائے دنیا کہ جس سے چکر میں سب ہیں انساں
کیا پریشاں ان آندھیوں نے تمام ذروں کو خاک اڑا کر
یہ کس کی تیغ جفا کا یا رب ہر ایک دل پر ہے رعب غالب
ہلال کی ہے خمیدہ گردن سپہر چلتا ہے سر جھکا کر
شبیہ مد نظر ہے کس کی کہ کوئی پوری نہیں اترتی
مٹا دیے صانع ازل نے ہزاروں نقشے بنا بنا کر
ہو بزم جاناں میں حشر برپا تڑپ کا دل کی یہ تھا تقاضا
مگر بڑی مشکلوں سے روکا ادب نے زانو دبا دبا کر
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 60)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.