اڑا کر رکھ دیے پرزے جگر کے
اڑا کر رکھ دیے پرزے جگر کے
اجی بل جائیے تیغ نظر کے
یہ حالت ہو گئی زلفوں میں پھنس کر
کہ اب مہمان ہیں ہم رات بھر کے
خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
نہ تم نے قدر کچھ عاشق کی جانی
بہت روؤ گے اب تم یاد کر کے
اجی دل میں اتر آؤ کسی دن
مری آنکھوں پر اپنے پاؤں دھر کے
دم آخر تو سینے سے لپٹ جا
کوئی جیتا نہیں اے جان مر کے
لحد میں تم نہ چھیڑو اے فرشتو
ستائے ہیں کسی کے عمر بھر کے
نہ جب تک اس کو چھاتی سے لگایا
غضب صدمے رہے درد جگر کے
بنے آنسو پھپھولے صورت شمع
جلائے ہیں ہم اپنی چشم تر کے
برنگ شمع ٹھنڈا بھی کر اے صبح
جلائے ہیں کسی کے رات بھر کے
غم دنداں میں وہ لاغر ہوئے ہم
کہ ہیں تار نظر چشم گہر کے
خدا حافظ ترے بیمار کا ہے
کہ اب غش آتے ہیں دو دو پہر کے
کہیں تو دل جگر جلنے لگے گا
نہ سنئے میری آہیں کان دھر کے
دم آخر دیے اس بت نے بوسے
وہ بوسے تھے کہ تھے توشے سفر کے
کہیں پھر چوٹ کھائی تم نے آسیؔ
بہت روتے ہو دل پر ہاتھ دھر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.