ان کا نہ تصور بھی کرتا جو ہم آغوشی
ان کا نہ تصور بھی کرتا جو ہم آغوشی
ہے ہے شب تنہائی کس طرح بسر ہوتی
محفل میں جو تو آتا پہلے کی طرح سے پھر
آنکھوں میں جگہ تیری اے نور نظر ہوتی
کھڑکی جو کبھی کھلتی پھرتے نہ تماشائی
بند آپ کے کوچے میں ہر راہ گزر ہوتی
کیا آبرو آ جاتی موتی کی لڑی بنتے
اشکوں میں اگر خشکی اے دیدۂ تر ہوتی
کس واسطے ہم دل کو چھاتی سے لگا رکھتے
تصویر بھلا اس میں تیری نہ اگر ہوتی
دل میں بھی کہیں ایسا ہی کچھ درد اگر ہوتا
چھٹی ہی میری پھر تو اے درد جگر ہوتی
دانت ان کے جو کھل پڑتے آرائش ابرو میں
تلوار کے چھاؤں میں بھی آب گہر ہوتی
سنتے ہیں گنہ گاروں کی آج رہائی ہے
آسیؔ کی بھی بخشائش اے خیر بشر ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.