ان کو بت سمجھا تھا یا ان کو خدا سمجھا تھا میں
ان کو بت سمجھا تھا یا ان کو خدا سمجھا تھا میں
ہاں بتا دے اے جبین شوق کیا سمجھا تھا میں
اللہ اللہ کیا عنایت کر گئی مضراب عشق
ورنہ ساز زندگی کو بے صدا سمجھا تھا میں
ان سے شکوہ کیوں کروں ان سے شکایت کیا کروں
خود بڑی مشکل سے اپنا مدعا سمجھا تھا میں
میری حالت دیکھیے میرا تڑپنا دیکھیے
آپ کو اس سے غرض کیا ہے کہ کیا سمجھا تھا میں
کھل گیا یہ راز ان آنکھوں کے اشک ناز سے
کیفیات حسن کو غم سے جدا سمجھا تھا میں
اے جبین شوق ہاں تجھ کو بڑی زحمت ہوئی
آج ہر ذرہ کو ان کا نقش پا سمجھا تھا میں
اک نظر پر منحصر تھی زیست کی کل کائنات
ہر نظر کو جان جان مدعا سمجھا تھا میں
آ رہا ہے کیوں کسی کا نام ہونٹوں تک مرے
اے دل مضطر تجھے صبر آزما سمجھا تھا میں
آپ تو ہر ہر قدم پر ہو رہے ہیں جلوہ گر
آپ کو حد نظر سے ماورا سمجھا تھا میں
یہ فغاں یہ شور یہ نالے یہ شیون تھے فضول
کیا بتاتی تھی محبت اور کیا سمجھا تھا میں
اس نگاہ ناز نے بہزادؔ مجھ کو کھو دیا
جس نگاہ ناز کو اپنی دوا سمجھا تھا میں
- کتاب : کاروانِ غزل (Pg. 78)
- Author : فاروق ارگلیؔ
- مطبع : فرید بک ڈپوٹ (2004)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.