وصل کی شب رنگ گردوں نوع دیگر ہو گیا
وصل کی شب رنگ گردوں نوع دیگر ہو گیا
شام سے یار اور میں جامے سے باہر ہو گیا
اس شہ خوباں کو جب لکھا عریضہ شوق کا
اس قدر لوٹا ہما اس پر کبوتر ہو گیا
کو بہ کو پھرتا ہوں میں خانہ خرابوں کی طرح
جیسے سودے کا ترے سر میں مرے گھر ہو گیا
بوجھ ہے حمال کا قاصد سے اٹھنے کا نہیں
طول شرح شوق سے مکتوب دفتر ہو گیا
گوش عارف میں یہ گورستاں سے آتی ہے صدا
آسماں ہے وہ زمیں کے جو برابر ہو گیا
تیرے پہلو سے جدا ہوتے ہی اے آرام جاں
استخواں جو تھا مرے پہلو میں خنجر ہو گیا
سامنا جو پڑ گیا ہوش اڑ گئے بے خود ہوا
جام چشم یار بے ہوشی کا ساغر ہو گیا
ایک الف سے قد کے سودے میں ہوا آتشؔ فقیر
چار ابرو کو صفا کر کے قلندر ہو گیا
- کتاب : Asli Guldasta-e-Qawwali (Pg. 14)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.