وہ ہو حق اب کہاں افسردہ ہے مے خانہ برسوں سے
وہ ہو حق اب کہاں افسردہ ہے مے خانہ برسوں سے
نہیں قائم ہوئی ہے مجلس رندانہ برسوں سے
ہے برگشتہ کسی کی نرگس مستانہ برسوں سے
لیے پھرتا ہوں میں اپنا تہی پیمانہ برسوں سے
نہ آئی میری نوبت وائے ساقی ہائے محرومی
برابر گو ہے گردش میں ترا پیمانہ برسوں سے
بعید انصاف سے ہے غیر کو ترجیح مجھ پر ہو
وہ عاشق کل ہوا میں ہوں ترا دیوانہ برسوں سے
بجز عجز و نیاز و بندگی میں اور کیا جانوں
یہ دل ہے زیر مشق ناز معشوقانہ برسوں سے
انہیں آخر مری یاد آئی اور اس انداز سے آئی
نہیں آیا ہے اس جانب مرا دیوانہ برسوں سے
بس اب آ جا بس اب آ جا کرم فرما کرم فرما
صدائیں دے رہا ہے کوئی بیتابانہ برسوں سے
صراحی در بغل ساغر بکف مستانہ وار آ جا
لگائے آسرا بیٹھا ہے اک مستانہ برسوں سے
دل پر شوق روز اس بزم میں اس طرح جاتا ہے
کہ دیکھی ہو نہ جیسے صورت جانانہ برسوں سے
کبھی مجنوں سناتا تھا اور اب مجذوبؔ سے سن لو
چلا آتا ہے دنیا میں مرا افسانہ برسوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.