یاد مے خواروں کو گر بادہ پرستی ہوگی
بعد مرنے کے بھی اک جوشش مستی ہوگی
خاکساران محبت کے جہاں مدفن ہیں
ابر رحمت کے عوض خاک برستی ہوگی
قافلے یاروں کے ہر روز چلے جاتے ہیں
بستی ان لوگوں کی آخر کہیں بستی ہوگی
حق نے وہ حسن دیا ہے تجھے او غیرت حور
بند محرم کے پری آن کے کستی ہوگی
ایک اک بال شرف نافہ پہ رکھتا ہوگا
چوٹی جب ارگجے کے عطر میں بستی ہوگی
دفن جس جا ہوئے عاشق دل صد چاک لیے
پھوٹ کی طرح زمیں وان کی بکتی ہوگی
ولولے عشق و محبت کے جوانی تک ہیں
پھر جنوں ہوگا مری جان نہ مستی ہوگی
حکم زاہد نہ رہا دور ہے اب ساقی کا
حق پرستی کے عوض بادہ پرستی ہوگی
یاد رکھ دیکھ کے دنیا کے نشیب اور فراز
اب بلندی ہی جہاں پھر وہیں پستی ہوگی
شمع و گل گور پہ عاشق کی کبھی لے کے چلو
روح مرحوم کی جنت میں ترستی ہوگی
نہ کبھی ہوش میں آیا وہ ہوں مدہوش ازل
غفلت اس بے خبری پر مری ہنستی ہوگی
آتش ہجر سے جل بھن کے مہوا جو عاشق
لاش اس کی تا مدفن بھی بھلستی ہوگی
کون کہتا ہے کہ ہو جائے گی ارزانیٔ حسن
کبھی بازار میں یہ جنس نہ سستی ہوگی
کیوں نہ بازیچۂ دنیا کو کہیں نقش فنا
ایک دن جانتے ہیں نیست یہ ہستی ہوگی
بعد مردن جو کوئی غور سے دیکھے گا کبھی
بے کسی اپنے ہی مرقد پر برستی ہوگی
بادہ خواروں میں جو ذکر اپنا بھی آیا ہوگا
شیشے کی طرح سے مے حلق میں پھنستی ہوگی
آزما لیجئے جب چاہے وہ عاشق ہوں
اف نہیں کرنے کا گر آگ برستی ہوگی
دل جگر دونوں ہی مشتاق ہیں اس خنجر کے
سینے پر کھاؤں گا جو ضرب دو دستی ہوگی
جلوۂ حق ہے عیاں حسن سے ہم سے واعظ
حق پرستی تو نہیں حسن پرستی ہوگی
یا علی کہہ کے لحد میں جو پکاروں گا رندؔ
ٹھہر جائے گی اگر گور بھی دھنستی ہو گے
مأخذ :
- کتاب : دیوان رند (Pg. 193)
- Author : سید محمد خان رندؔ
-
مطبع : منشی نول کشور، لکھنؤ
(1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.