ہائے مجبوری دلِ ناشاد کی
ہائے مجبوری دلِ ناشاد کی
روبرو ان کے بھی نہ فریاد کی
دل کے ہاتھوں لٹ گئے، رسوا ہوئے
کیا کہوں تفصیل اس روداد کی
ہے وفا جب مذہبِ عشقِ غیور
کیا شکایت حسن کے بیداد کی
ایک اس کی یاد ہی تو ہے فقط
دولت مجھ سے بیکس و بیداد کی
تا اور ہو مشقِ ستم عشاق پر
حسن والو نے حیا ایجاد کی
عشق والو نے خرابے میں یہاں
اک نئی دنیائے دوں آباد کی
اک قیامت روز ہے دل پہ مرے
کیا کہوں اس وعدہ و میعاد کی
بولے وہ قبرِ شکتہ پہ مری
عشق نے مٹی تیری برباد کی
چھا گیا ایک کیف کا عالم بسیط
جب بھی چشمِ نرگسیں وہ یاد کی
پیتا ہوں مئے کہ کے بسم اللہ فرازؔ
کربلا کی دیوہ اور بغداد کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.