یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
بڑھے سلیماں کے جتنے رتبے تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے بلند ہو نام اس نگیں کا
کہاں کا نالہ کہاں کا شیون سنائے قاتل ہے وقت مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
عجب مرقع ہے باغ دنیا کہ جس کا صانع نہیں ہویدا
ہزارہا صورتیں ہیں پیدا پتا نہیں صورت آفریں کا
خدا سے جب تک نہ ہو شناسا حریم دل کا ہے شوق بیجا
مکان کا تب پتا ملے گا کہ کچھ پتا یاد ہو مکیں کا
کس آستانے پہ جا پڑا ہوں کہاں الٰہی میں جبہ سا ہوں
کہ سر نہ اٹھے ہزار چاہوں یہ ربط ہے سجدہ و زمیں کا
کہاں کا کعبہ ہے دیر کیسا بتاؤ کوچے کا اس کے رستا
میں پوچھتا ہوں پتا کہیں کا نشان دیتے ہو تم کہیں کا
- کتاب : کلام امیر مینائی (Pg. 30)
- Author : امیر مینائی
- مطبع : مشورہ بک ڈپو، دہلی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.