لرزہ ہوا ہے طاری شعرا کے فکر و فن میں
دلچسپ معلومات
خواجہ حیدر علی آتش کی زمین میں۔
لرزہ ہوا ہے طاری شعرا کے فکر و فن میں
یہ کون آ رہا ہے غزلوں کی انجمن میں
نقش و نگار اتنے دیکھے ہیں اس بدن میں
ایسا سراپا آنا مشکل ہے حسن ظن میں
کیسے نظر لگے گی مجبور ہے نظر خود
تارے چمک رہے ہیں اس درجہ پیرہن میں
اب کے بہار میں تو جشن بہار ہوگا
وہ خوش خرام آیا خوشبو لئے چمن میں
ان آتشی لبوں پر بوسے ہیں زندگی کے
تعبیر خواب غم ہے جاگی ہوئی دلہن میں
گلشن کے گل مسلسل گر گر کے ہنس رہے ہیں
کیسا سحر چھپا ہے گلچیں کے بانکپن میں
اب دھڑکنوں پہ قابو چلتا نہیں کسی پل
برگشتہ دل ہوا ہے اپنے ہی جان و تن میں
آؤ اسی سے سیکھیں انداز خوش کلامی
شیریں سخن ہیں پنہاں شیریں سے اس دہن میں
تیشہ کدال کیسے وہ نہر کھود لاتے
جوش جنوں کا جذبہ شامل تھا کوہ کن میں
تنہا نہیں ہے آتش اپنی زمیں میں یکتا
اک شیر ہے ضیاؔ بھی اس شیر نر کے بن میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.