Sufinama

ایاز کا اپنے پوستین کے لیے حجرہ تعمیر کرنا اور حاسدوں کی بدگمانی۔ دفترپنجم

رومی

ایاز کا اپنے پوستین کے لیے حجرہ تعمیر کرنا اور حاسدوں کی بدگمانی۔ دفترپنجم

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب

    ایاز نے جو بہت عقلمند تھا اپنے پرانے پوستین اور چپلوں کو ایک حجرے میں لٹکا رکھا تھا اور روزانہ اس حجر ے میں تنہا جاتا اور اپنے آپ سے کہتا کہ دیکھ تیری چپلیں یہ رکھی ہیں خبردار تکبّر و نخوت مت کرنا۔ لوگوں نے بادشاہ سے عرض کی کہ ایاز نے ایک حجرہ بنایا ہے اس میں چاندی سونا جمع کیا ہے اور ایک شراب کا چھوٹا سا پیپا بھی ہے وہاں کسی کو آنے نہیں دیتا ہمیشہ دروازہ بند رکھتا ہے۔ بادشاہ نے فرمایا اس غلام پر حیرت ہے۔ بھلا ہم سے کیا چیز اور کیا بات پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ بادشاہ نے ایک امیر کو حکم دیا کہ آدھی رات کو زبردستی دروازہ کھول کر اندر گھس جاؤ۔ وہاں جو کچھ پاؤ لوٹ لو اور وہاں کے پوست کندہ حالات اہلِ دربار پر ظاہر کرو۔ اس کے کیا معنیٰ کہ ہمارے اتنے کم اور بے حساب مہر بانیوں کے باوجود بھی اپنی بد فطری کی وجہ سے سونا چاندی چھپا کر رکھتا ہے اگرچہ بادشاہ خود اس کی پاک بازی کا یقین رکھتا تھا لیکن امیروں کو علانیہ دکھانے کے لئے تدبیر کی اور حکم دیا اے امیرو! آدھی رات کو جاکر اس کے حجرے کا دروازہ کھولو۔

    اس کی ساری دولت میں نے تمہیں بخشی۔ بادشاہ امیروں سے تویہ کہہ رہاتھا مگر اس کا ضمیر جانے بوجھے کے متعلق ایسا حکم دینے پر بے تاب تھا کہ میری زبان سے اور ایسے احکام ایاز کے متعلق نکلیں۔ اگر میری ایسی سنگ دلی کا حال وہ سن لے گا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ پھر کہتا تھا کہ اسی کے دین وایمان کی قسم اس واقعے کے بعد اس کی عزّت و توقیر اور بڑھ جائے گی۔ اگر میں آزمانے کو سوتلواریں بھی لگاؤ ں تو بھی اس پیارے کی محبّت کم نہ ہوگی۔

    القصّہ وہ سب امیر حجرے کے دروازے پر دولت اور شراب لوٹنے کی دُھن میں پہنچے۔ چند آدمیوں نے بڑی ہاتھ چالاکی اور کان سے دروازے کا قفل کھول ڈالا کیوں کہ اس پر بہت پیچ دار قفل پڑا ہواتھا۔ ایاز نے یہ قفل بخل کی راہ سے نہیں ڈالا تھا بلکہ چاہتاتھا کہ اپنا بھید عوام الناس سے پوشیدہ رکھے۔ حجرہ کھول کر یہ بدگمان حاسد ایک دم ایسے اندر گھس پڑے جیسے کہ چھاچھ کی ناند میں مکھّی مچھّر سڑ کر بدبو دینے لگتے ہیں کیونکہ وہ چھاچھ کے عشق میں بڑے زور شور سے گرتے ہیں مگر نہ چھاچھا کھا سکتے ہیں نہ باہر نکلنے کا دم باقی رہتا ہے۔ انہوں نے حجرے کے دائیں بائیں دیکھا بھالا۔ وہاں سوائے پھٹی چپل اور پوستین کے کیا دھرا تھا۔ پھر آپس میں کہا کہ اس جگہ ضرور کچھ ہونا چاہئے۔ یہ پھٹی ہوئی چپلیں تو ضرور دکھاوے کو ہیں۔ کہنے لگے نوکدار میخیں تولے آؤ زمین دوز حوضوں اور بد رَوؤں کو بھی کھول کر دیکھ لیں۔

    چنانچہ ہر طرف کھود کھود کر بھی دیکھا۔ کئی کئی گڑھے اور خندقیں کھود ڈالیں مگر آخر کار اپنی حرکتوں پر شرما شرما کر ان گڑھوں کو بھرتے جاتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی عقل کے اندھے پن سے دیواروں میں بڑے بڑے بغارے ڈال دیئے۔ لیکن یہاں بھی ہر اینٹ میں لاحول کی گونج تھی۔ اس گروہ کی تمام گمراہیوں اور بیہودگیوں کے گواہ دیواروں کے بغارے رہ گئے ۔ یہ تو ممکن تھا کہ دیوار زبانِ حال سے نالہ نہ کرے مگر ایاز کی بے گناہی پر کوئی مجالِ انکار نہ تھی۔ بہر حال اب یہ فکر پڑی کہ بادشاہ کے سامنے کیا عذر کریں کہ اپنی جان بچے۔ آخر کار مایوس ہوکر اپنے ہاتھوں اور ہونٹوں کو کاٹ کاٹ کر لہولہان کرتے ہوئے سروں پر عورتوں کی طرح دُہتّٹر مارتے ہوئے وہ لوگ گرد وغبار میں اٹے زرد و شرمندہ شکل بنائے حضورِ شہریار میں حاضر ہوئے۔

    بادشاہ کے عرض بیگی نے چھٹتے ہی پوچھا کہ بتاؤ کیا حال ہے؟ تمہاری بغلیں زر وجواہر کی تھیلیوں سے خالی ہیں۔ اور اگر تم نے وہ دولت چھپالی ہے تو خیر مگر تمہارے چہروں اور گالوں پر مسرت کے خون کی جھلک تک بھی نہیں ہے ۔وہ سب امیر پشیمانی کا اظہار کرنے لگے۔ اور سب کے سب سائے کی طرح چاند کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ اس کینے اور ہماہمی کے دعووں کی شرمندگی مٹانے کو تیغ وکفن لے کر حاضر ہوئے۔ سب مارے شرم کے انگلیاں کاٹ رہے تھے اور ہر ایک کہہ رہاتھا کہ اے شاہ جہاں! اگر ہمارا خون بھی بہایا جائے تو بالکل حلال ہے۔ اگر بخش دیا جائے تو آپ کا انعام و احسان ہے۔ بادشاہ نے ارشاد کیا کہ نہیں میں نہ تم کوبخشوں گا نہ سزادوں گا۔ یہ معاملہ ایاز کے سپرد ہے۔ یہ تکلیف و مصیبت ایاز کے جسم اور آبرو پر گزری ہے اور زخم اس نیک خصلت کی رگوں پر لگے ہیں۔ لہٰذا اے ایاز! اب تو ان مجرموں پر حکمِ عدالت جاری کر کیوں کہ ہم کو تیرے بدلہ لینے کا سخت انتظار ہے۔

    ایاز نے عرض کی کہ اے بادشاہ حکم تو تجھی کو حاصل ہے۔ جہاں آفتاب طلوع ہو، وہاں ستارے نابود ہوجاتے ہیں۔ زہرہ یا عطأرد یا شہابِ ثاقب کی کیا مجال ہے کہ آفتاب کے آگے اپنا وجود ثابت کریں۔ بادشاہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایاز تجھے اپنی چپّل اور پوستین سے یہ عشق ہے۔ یہ تیری بت پرستی نہیں تو کیا ہے۔ اِن دو پرانی چیزوں کو تو کب تک یاد رکھے گا۔ آخر یہ تو بتا کہ تیری چپل کس آصف کی جلوہ گاہ ہے اور کیا تیری پوستین یوسف کی قمیص ہے؟ اپنی چپل کے اس بھید کو بیان کر کہ تجھے اس چپل کے آگے اتنی سرافگندگی کیوں ہے، تاکہ پوستین اور چپل کے اصل بھید کو معلوم کر کے ہمارے نافرمان اور فرماں بردار بندے سر جھکائیں۔

    ایاز نے عرض کی میں تو اتنا ہی جانتا ہوں کہ سب تیری عطا ہے ورنہ میں تو وہی پوستین اور چپّل ہوں۔ اسی لیے ان کی حفاظت کرتا ہوں کہ گویا وہ میری اصلی ذات کی حفاظت ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 170)
    • مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے