ایک بیمار کا صوفی و قاضی کے چانٹا لگانا۔ دفترششم
دلچسپ معلومات
ترجمہ: مرزا نظام شاہ لبیب
ایک شخص طبیب کے پاس گیا اور کہا کہ ذرا میری نبض دیکھ دیجئے۔ طبیب نے نبض ہاتھ میں لی اور جان گیا کہ اس مریض کی صحت کی امید نہیں۔ اس سے کہا کہ جو تیرے جی میں آئے وہ کر، تاکہ جسم سے یہ بیماری جاتی رہے۔ اس مرض کے لئے صبر و پرہیز کو نقصان سمجھ اور جس کام کو تیرا دل چاہے وہ ضرور کر۔
بیمار نے کہا کہ خدا تجھے اچھا رکھے۔ اے بھائی اب تو میں نہر کے کنارے جاتاہوں۔ نہر کے کنارے ایک صوفی بیٹھا ہاتھ منہ دھو رہاتھا۔ یکایک جو اس مریض کے جی میں آیا اور صوفی کی گدی پر ایک چانٹے کا ہاتھ صاف کیا۔ کیونکہ اس نے سوچا کہ چانٹا لگانے کی رغبت ہے۔ اب اس رغبت کو پورا نہ کروں گا تو طبیب کہہ چکا ہے کہ بیماری بڑھ جائے گی۔ جو نہی اس نے تڑاق سے اسے چانٹا رسید کیا صوفی تڑپ کر کھڑا ہوگیا اور ارادہ کیا کہ دو تین گھونسے کس کر لگائے اور داڑھی مونچ اکھاڑ ڈالے لیکن نظر بھر کے جو دیکھا تو وہ بہت میخی اور بیمار تھا۔ مرض الموت نے اس کا پہلے ہی کام تمام کردیا ہے۔ وہ تو میرے ایک گھونسے میں رانگ کی طرح پگھل جائے گا اور لوگ سارا الزام مجھ پر دھریں گے۔ یہ سوچ کر اس کا دامن تھام لیا اور کھینچتا ہوا قاضی کے پاس لایا کہ اس بے نصیب گدھے کو گدھے پر بٹھایا جائے یا چانٹے کے بدلے اس کو دُرّے کی سزا دی جائے۔ بہر حال جو آپ کی رائے ہو وہ کیجئے۔
قاضی نے کہا کہ مارنے کا مقام کون سا ہے کیوں کہ تیرا دعویٰ ابھی ثابت نہیں؟ احکامِ شرع زندوں او سرکشوں کے لئے ہیں۔ مرنے والوں پر احکام شرع نافذ نہیں ہوسکتے اس کو گدھے پر بٹھانا بھی مصلحت نہیں۔ بھلا سوکھی لکڑی کو کون گدھے پر بٹھاتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کے لئے گدھے کی پیٹھ سزاوار نہیں۔ اس کی رسوائی کو تابوت سزاوار ہے۔
صوفی نے کہا کہ تو کیا آپ جائز سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چانٹا بھی لگائے اور کوئی سزا بھی نہ پائے؟ کیا یہ جائز ہے کہ ہر راستہ چلتا بازاری آدمی صوفیوں کو بے وجہ چانٹا لگا دے؟ قاضی نے کہا ارے جا صوفی کا کیا گیا، ایسے قریب الموت بیمارسے جھگڑا مت کر۔ اے صوفی اس وقت تیرے پاس کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ چھ درم میرے پا س ہیں۔ قاضی نے کہا تین درم تو خرچ کراور باقی تین درم اسے دے دے۔ یہ بے حد کمزورہے۔ بیمار اور مسکین ہے۔ تین درم اس کو روٹی کھانے کے کام آئیں گے۔
یہ سن کر صوفی بہت بگڑا اور قاضی سے رد و قدح ہونے لگی لیکن اِدھر اس بیمار کا برا حال تھا۔قاضی کی گُدّی پر جو اس کی نظر پڑی تو دیکھا کہ وہ صوفی کی گُدّی سے بھی زیادہ چکنی اور اچھی تھی۔ چانٹے کے لئے ہاتھ تانا اور کان میں بات کہنے کے طور پر قاضی کے پاس آیا اور تڑاق سے ایک چانٹا قاضی کے بھی رسید کردیا اور کہا کہ وہ چھ درم تم دونوں ہی بانٹ لو تاکہ میں بے خرخشے اور بے وسوسے چلا جاؤں۔ اس حرکت پر قاضی مارے غصے کے بے قابو ہوگیا اور چاہا کہ اس کے فوراً دُرّے لگوائے۔ صوفی نے کہا ہائیں! اے شریعت پناہ! تمہارا حکم عین انصاف ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کرسکتا جو بات تو، اپنے لیے نہیں پسند کرتا وہی بات اپنے بھائی کے حق میں کیسے تجویز کر رہا تھا۔
- کتاب : حکایات رومی حصہ اول (Pg. 206)
- مطبع : انجمن ترقی اردو (ہند) (1945)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.